Siyasi Manzar
مضامین

اہل غزہ کیلئے سعودی عرب کی بے مثال سخاوت

عبدالمعین عبدالوہاب المدنی
ندوۃ السنۃ اٹوا بازار سدھاتھ نگر

خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے فلسطین کے لیے عوامی عطیات مہم شروع کرنے کی ہدایت کردی ہے۔

سعودی پریس ایجنسی کے مطابق عوامی عطیات مہم کنگ سلمان سینٹر برائے انسانی امداد کے تحت ’ساہم‘ ویب سائٹ کے ذریعے کی جائے گی۔
کنگ سلمان سینٹر برائے انسانی امداد اور ایوان شاہی میں مشیر ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد العزیز الربیعہ نے غزہ میں متاثرین کے لیے عوامی عطیات مہم چلانے پر سعودی قیادت کا شکریہ ادا کیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ ’شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی ہدایت پر چلائی جانے والی عوامی مہم سے اہل غزہ کے دکھوں کا مداوا ہوگا‘۔انہوں نے کہا ہے کہ ’سعودی عرب نے فلسطینیوں کو ہمیشہ آگے بڑھ کر مدد کی ہے۔‘انہوں نے واضح کیا ہے کہ ’عوامی عطیات مہم آن لائن ساہم پلیٹ فارم کے ذریعہ ہوگی‘۔
اس مہم کی شروعات کرتے ہوئے خود خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز نے فلسطین کے لیے 30 ملین ریال یعنی تقریباً 66 کروڑ انڈین روپے عطیہ کردیا ہے۔
جبکہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے عوامی عطیات مہم کے تحت 20 ملین ریال یعنی 44 کروڑ انڈین روپے کا عطیہ کیا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کے مفتی اعلی شیخ عبدالعزیز آل الشیخ نے غزہ پٹی میں فلسطینی عوام کی مدد کے لیے جاری عوامی عطیات مہم میں دو لاکھ ریال یعنی 44 لاکھ انڈین روپے پیش کردیے۔
سعودی عرب کی یہ سخاوت ایک انسانی بحران کے موقع پر کوئی نئی نہیں ہے، اس طرح کے تمام تر انسانی بحران کے موقع پر سعودی عرب ہمیشہ پیش پیش رہاہے، سعودی عرب نے پہلے اسرائیل کے سامنے دو ریاستی قیام کا حل پیس کیاتھا لیکن افسوس کہ وہ پورا نہیں ہوسکا، اوراس کے پس پردہ جو اسباب تھے اسے مولانا شیرخان جمیل احمد عمری کے قلم سے سمجھنے کی کوشش کریںآپ فیس بک کے وال پر تحریر فرماتے ہیں:
’’ فلسطینیوں پر اسرائیل کی بمباری اور حماس کا کردار‘‘
غزہ، فلسطین کی موجودہ جنگ کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے۔ اس کو وہی لوگ صحیح سمجھ سکتے ہیں جو عالمی اور مشرق وسطی کی سیاست کو گہرائی سے جانتے ہیں۔
آپ جانتے ہیں فلسطین میں دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں ایک الفتح اور دوسری حماس۔ سنی ممالک حماس کی بجائے عموماً الفتح کی تائید کرتے ہیں اس کی وجہ حماس کا ایران اور حزب اللہ اور ان کے حواریوں سے قریب ہونا اور ان کو اپنا مشیر بنالینا ہے۔
پچھلی کئی جنگوں کا رزلٹ امت کے سامنے ہے، موجودہ صورت حال میں بھی فلسطین کا مسئلہ جنگ سے حل ہونا مشکل تھا اس لئے سنی ممالک اس مسئلہ کے حل کے لئے اس کے متبادل سیاسی حل یعنی دو ریاستی ایجنڈے پر کام کر رہے تھے جو حماس کو منظور نہیں تھا۔ ( اگرچہ کہ ایک خبر کے مطابق اتنی تباہی اور قتل وغارت گری کے بعد حماس کے لیڈر اس فارمولہ پر بات کرنے اور سیاسی حل کے لئے تیار ہیں۔)
حماس کو ستمبر 2023 میں جب معلوم ہوا کہ فلسطین کا مسئلہ حل ہونے کی طرف آگے بڑھ رہا ہے تو وہ سنی ممالک کو چھوڑ کر اپنے مشیران کی ایماء پر اسرائیل پر حملہ کردیا۔ آپ نے نوٹ کیا ہوگا اس حملہ سے قبل ایران اور حزب اللہ کی زبان اسرائیل وامریکہ کے خلاف آگ برسا رہی تھی، سخت دھمکیاں دی جارہی تھیں ! لیکن حملہ کے بعد ان لوگوں نے اپنا پلہ جھاڑ لیا بلکہ دونوں نے یہاں تک کہدیا کہ حماس کے حملہ سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان دونوں کو آخر اس وضاحت کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس پر غور کیجئے!
حماس کے مشیران کو یہ گمان تھا کہ یہ جنگ شروع ہوجائے گی تو کچھ سنی ممالک تو ضرور ان کا ساتھ دیں گے اور فزیکلی میدان میں آئیں گے پھر اسرائیل وامریکہ ان کی بینڈ بجائے گا اور سنی ممالک کو تباہ کرے گا یا کم ازکم ان کی فوجی ودفاعی قوت کو ختم یا کمزور کردے گا جس کے نتیجہ میں مشرق وسطیٰ پر سنی عرب ممالک کی گرفت مزید کمزور پڑجائے گی۔
سنی ممالک رافضیوں کے ایجنڈے سے اچھی طرح سے واقف ہوچکے ہیں۔ اس لئے وہ جوش کی بجائے ہوش سے کام لے رہے ہیں، پھونک پھونک

کر قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔
آپ سنجیدگی سے جائزہ لیجئے:ایران اور حزب اللہ وغیرہ کیوں حماس کی مدد نہیں کر رہے ہیں ان کو چھوڑیے، اردن کو دیکھئے جو اخوانیوں اور حماسیوں کا بہت بڑا گڑھ ہے اس ملک نے حماس کی فزیکل مدد میں کوئی قدم نہیں اٹھایا سوائے اپنے سفیر واپس بلانے اور کچھ بیان دینے کے۔ قطر کو دیکھ لیجئے جہاں حماس کا ہیڈ آفس قائم ہے، حماس کے لیڈر اسماعیل ہانیہ وہیں رہتے ہیں، لیکن قطر نے حماس کی کوئی فوجی مدد نہیں کی، دس ہزار سے زائد بالخصوص معصوم فلسطینی بچے اور عورتیں شہید ہوچکے ہیں اور روزانہ اس میں اضافہ ہورہا ہے، غزہ کا مکمل انفراسٹکچر تباہ کیا جارہا ہے اور قطر حماس کی کوئی فزیکل مدد نہیں کر رہا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ قطر کی سرزمین پر حماس کا ہیڈ آفس بھی ہے اور ساتھ ساتھ امریکی فوج کی ایک بڑی بٹالین بھی پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے۔ ترکی اتنی بڑی طاقت ہے پھر بھی وہ بیان بازی کے علاوہ فزیکلی ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکا بلکہ وہ اب بھی اسرائیل کے ساتھ خوب تجارت کر رہا ہے۔ تعجب اس وقت اور زیادہ ہوتا ہے جب ترکی یہ اعلان کرتا ہے کہ ہم اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلا رہے ہیں لیکن اس سے تعلقات ختم نہیں کریں گے۔ ترکی کی اپوزیشن ’’سعادت پارٹی‘‘ کے ایک ممبر پارلیمنٹ نے گذشتہ دنوں پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے اردگان حکومت کے نفاق کی پول کھول کر رکھدی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’افسوس کہ 16 سال سے غزہ محاصرہ میں ہے اور بائیکاٹ کیا ہوا ہے لیکن اسرائیل کے لئے بائیکاٹ نہیں ہے آج (ترکیہ) حکومت کے دسیوں ممبر کہتے ہیں کہ ہم غزہ کے لئے غمگین ہیں ٹھیک ہے میں مانتا ہوں لیکن جو اسرائیلی پائیلٹ غزہ میں لوگوں کا بمباری سے قتل عام کر رہے ہیں انہوں نے ترکیہ کے قونیہ میں ٹریننگ حاصل کی ہے، اسرائیلی طیاروں کے لئے ایندھن ترکیہ کے اسکندون سے فراہم کیا جا رہا ہے، غذا ترکیہ کے الانیا سے جا رہا ہے پانی ترکیہ کے مانوگاٹ سے جا رہا ہے۔ صہیونی آبادکاری کے لئے لوہے اور اسٹیل کی تجارت 20 میلیارڈ تک پہنچ گئی ہے۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن شاید قاتل اسرائیلیوں کے لئے اسلحہ بھی ترکیہ کی حکومت کی حمایت سے فراہم کیا جا رہا ہے، تو اگر آپ لوگوں میں جرأت ہے تو آجائیں اس کے بارے میں بات کریں‘‘۔
آپ اسی طرح سے دیگر اسلامی ممالک کی تحلیل کرتے چلے جائیں ساری پرتیں کھلتی چلی جائیں گی۔ لوگ صرف سعودی عرب کو گالی دیتے ہیں، آج کل سعودی کو گالی دینا ایک فیشن بن گیا ہے جبکہ حماس کے حمایتی کئی ملکوں کے نفاق کو جان بوجھ کر سب چھپاتے ہیں۔
یاد رکھیں یہ جنگ بظاہر فلسطین کی جنگ ہے لیکن حالات بتارہے ہیں کہ اب کی بار کی یہ جنگ شیعہ سنی جنگ کا ایک حصہ لگتی ہے جو سنیوں اور سنی ممالک کو تباہ کرنے کے پلان سے کچھ ممالک نے حماس کے ذریعہ شروع کی ہے۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو لیکن قرینے یہی بتلاتے ہیں پھر بھی حقیقی علم اللہ علیم خبیر کے پاس ہے۔
ممکن ہے حماس اپنے مشیروں کے حقیقی خفیہ ایجنڈے سے واقفیت نہ ہو وہ وکٹم ہو، لیکن مسلسل دھوکہ کھائے جانے کی بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ بہتر ہوگا کہ وہ جلد اس دھوکہ سے باہر نکل آئے ورنہ ان کی مثال شیخ یوسف القرضاوی صاحب کی طرح ہوگی کہ وہ عمر کے آخری پڑاؤ میں غلطی کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ آپ اپنے ایک انٹرویو میں کھلے الفاظ میں کہتے ہیں آپ کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ حزب اللہ ، خمینی اور ایران کو سمجھنے میں مجھ سے غلطی ہوگئی۔ اس سلسلہ میں سعودی عرب کے علماء مجھ سے زیادہ سمجھدار تھے، وہ حق پر تھے اور میں غلطی پر تھا پھر آپ سعودیہ کے فوت ہوجانے والے اور زندہ علماء کے حق میں دعا فرماتے ہیں۔۔۔۔۔
شیخ قرضاوی صاحب کے رجوع کو یاد رکھنا بہت ضروری ہے۔ اخیر میں ورلڈ لیڈرشپ بالخصوص جملہ اسلامی ممالک کے سربراہان سے میرا شدید مطالبہ ہے کہ وہ غزہ میں فوری اسرائیل کی بربریت کو روکیں، بلا تاخیر جنگ بندی کرائیں اور معصوم لوگوں کی جان بچائیں۔ اسرائیل کو حماس سے بدلہ لینا تھا تو وہ معصوم فلسطینیوں کو کیوں قتل کر رہا ہے، معصوم بچوں اور عورتوں کے قتل کا اس کے پاس کیا جواز ہے؟ دنیا اسرائیل کو اس ظلم سے فوری روکے۔ میں مانتا ہوں کہ مسلسل جنگ کے باوجود حماس کا معصوم لوگوں پر حملہ کرنا غلط تھا، یہ اسلام کی تعلیمات کے سراسر خلاف عمل تھا، ہم اس کو کنڈم کرتے ہیں۔ لیکن اس کو بہانہ بناکر اسرائیل جو معصوم فلسطینیوں کو قتل کر رہا ہے کیا وہ سراسر ظلم نہیں ہے؟ ہم اس کی اور شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ اسرائیل کے پاس اس کا نہ قانونی اور نہ ہی اخلاقی جواز موجود ہے لہذا وہ اس ظلم سے فوری باز آجائے۔ اللہ تعالیٰ مظلوم فلسطینیوں کی غیب سے مدد فرما، ان کو اپنوں کی سازشوں اور دشمن کے حملوں سے محفوظ فرما اور جلد سے جلد انہیں اس آزمائش سے نجات دلاے دے آمین۔
سعودی شاہی خاندان کے بزرگ رکن شہزادہ ترکی بن فیصل آل سعود نے مشرق وسطی میں کشیدگی پر بے تکلف تقریر کی ہے :
سعودی شہزادے کی اسرائیل اور حماس دونوں پر تنقید جو اس تنازع پر شاہی خاندان کا موقف بتاتی ہے
سعودی شاہی خاندان کے بزرگ رکن شہزادہ ترکی بن فیصل آل سعود نے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی پر بے تکلف تقریر کی جو معمول کی بات نہیں ہے۔

اس بیان کو سعودی شاہی خاندان کا موقف سمجھا جا رہا ہے۔
شہزادہ ترکی کو سعودی حلقوں میں بڑے پیمانے پر ایک قابل احترام بزرگ سیاستدان مانا جاتا ہے۔ 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے اور اس کے بعد غزہ پر اسرائیلی بمباری پر انھوں نے دونوں فریقین اسرائیل اور حماس پر تنقید کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سب میں کوئی ’ہیرو‘ نہیں، صرف ’متاثرین‘ ہیں۔
اسرائیلی حملوں کے خلاف عرب دنیا میں کافی غصہ ہے۔ ایسے ماحول میں شہزادہ ترکی کی حماس پر تنقید ایک نایاب رائے ہے۔ شہزادہ ترکی یہ تقریر امریکہ کی رائس یونیورسٹی میں امریکی شرکا کے سامنے کر رہے تھے۔
انھوں نے کہا کہ حماس کی طرف سے کیے گئے اقدام اسلامی احکامات کے خلاف ہیں جو غیر مسلح عام شہریوں کو نقصان پہنچانے سے منع کرتے ہیں۔ حماس کے حملے میں یرغمال اور مارے جانے والے اکثریت لوگ عام شہری ہیں۔
سابق سفارتکار اور انٹیلیجنس چیف نے اسرائیل کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے ’غزہ میں معصوم فلسطینی شہریوں پر اندھا دھند بمباری‘ اور ’مغربی کنارے میں فلسطینی بچوں، عورتوں اور مردوں کی گرفتاری‘ کا الزام لگایا۔
انھوں نے 7 اکتوبر کے حملے کے حوالے سے امریکی میڈیا کی جانب سے ’بلا اشتعال حملہ‘ کے جملے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ’اس سے بڑھ کر اشتعال انگیزی اور کیا ہے، جو اسرائیل نے 75 برسوں سے فلسطینی عوام کے ساتھ کیا ہے؟‘
انھوں نے مزید کہا کہ ان تمام لوگوں کو مزاحمت کا حق ہے جن کی زمین پر فوجی قبصہ ہے۔
شہزادہ ترکی نے مغربی سیاست دانوں کی بھی مزمت کی جو ’فلسطینیوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے اسرائیلیوں‘ پر تو آنسو بہاتے ہیں لیکن وہ ’جب اسرائیلی فلسطینیوں کو مارتے ہیں تو افسوس کا اظہار کرنے سے بھی انکار کرتے ہیں۔‘
امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کے دورے کے دوران کہا تھا کہ امریکہ نے تمام بے گناہ متاثرین پر سوگ منایا ہے۔
’مسلم ممالک کا رہنما‘ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار کیوں ہے؟
’اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے قریب آ رہے ہیں۔۔۔ ایران نے جوہری ہتھیار حاصل کیے تو سعودی عرب بھی کرے گا:(محمدبن سلمان)
تو ان کی تقریر کا مقصد کیا تھا؟ شہزادے کو یقیناً اس بات کا اندازہ تھا کہ ان کی تقریر میڈیا پر کافی چلے گی۔
اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ انھوں نے کوئی بھی بات شاہی دربار کی منظوری کے بغیر کی ہے جسے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان چلاتے ہیں جنھوں نے جمعرات کو برطانوی وزیر اعظم رشی سونک سے ملاقات کی۔
شہزادہ ترکی کا کافی اثر و رسوخ ہے۔ ان کے والد شاہ فیصل سنہ 1975 میں ایک حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ ان کے بھائی سعودی عرب میں طویل عرصے تک وزیر خارجہ رہے۔ وہ سنہ 2015 میں اپنی موت تک اس عہدے پر رہے۔
شہزادہ ترکی کی پرنسٹن، کیمبرج اور جارجٹاؤن یونیورسٹی میں امریکی اور برطانوی تعلیم نے مغربی ثقافت اور سوچ کے بارے میں ایک انمول نقطہ نظر فراہم کیا ہے اور ساتھ ہی انھیں واشنگٹن اور وائٹ ہال میں فیصلہ سازوں کے درمیان تاحیات رابطے فراہم کیے۔
وہ بعد میں سعودی عرب کے انٹیلیجنس چیف بنے اور 24 سال تک افغانستان کی خصوصی ذمہ داری کے ساتھ فارن انٹیلیجنس کا شعبہ چلاتے رہے۔
سنہ 2001 میں نائن الیون حملوں کے بعد وہ پہلے لندن اور بعد میں واشنگٹن میں بطور سعودی سفیر تعینات رہے۔
لندن میں ان کے میڈیا ترجمان صحافی جمال خاشقجی تھے جنھیں سنہ 2018 میں سعودی حکومت کے ایجنٹس نے استنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل کر دیا تھا۔ سعودی عرب نے اس کا الزام ایک غیر مجاز ’روگ آپریشن‘ پر لگایا۔
شہزادہ ترکی کی عمر 78 سال ہے اور ان کے پاس سعودی حکومت کا کوئی عہدہ نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود جب وہ بین الاقوامی فورمز پر تقریر کرتے ہیں تو وہ سعودی شاہی خاندان کے بارے میں دلچسپ بصیرت فراہم کرتے ہیں۔
سعودی عرب کے حکمران حماس کو پسند نہیں کرتے۔ درحقیقت خطے کی بہت سی حکومتیں بھی اسے پسند نہیں کرتیں۔ مصر، اردن، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے حکمران حماس اور اس کے نام نہاد ’سیاسی اسلام‘ کے انقلابی برانڈ کو اپنی حکومت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
حماس نے سنہ 2007 میں یاسر عرفات کی فتح پارٹی پر مبنی فلسطینی اتھارٹی کا مؤثر طریقے سے غزہ سے صفایہ کر دیا تھا۔ اس کے کچھ ارکان کو ایک مختصر مدت کے تنازع کے دوران اونچی عمارتوں کی چھتوں سے پھینک دیا گیا تھا۔
اگرچہ حماس کا قطر میں سیاسی دفتر قائم ہے لیکن اس کا اصل حمایتی ایران ہے جو طویل عرصے سے سعودی عرب کا حریف ہے۔
اگرچہ سعودیوں اور ایرانیوں نے اس سال مارچ میں باضابطہ طور پر اپنے تنازع کو ختم کرنے پر اتفاق کیا تھا، لیکن ان کے درمیان کافی باہمی عدم اعتماد برقرار ہے۔ اس کے باوجود انھوں نے مشترکہ طور پر غزہ پر اسرائیل کی بمباری کی مذمت کی ہے اور فلسطینی ریاست کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔
اب یقین کرنا مشکل ہے لیکن حماس کے حملے سے قبل سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے راستے پر تھا، جیسا کہ متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے کیا ہے۔ یہ سلسلہ ابھی کے لیے رْک گیا ہے۔
کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حماس کا اسرائیل پر حملہ جزوی طور پر اس عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کو پٹڑی سے اتارنے کی خواہش کے نتیجے میں ہوا جس کی وجہ سے حماس اور ایران نئے مشرق وسطیٰ میں اکیلے رہ جاتے۔
کیا خطے میں حالات واپس ویسے ہو جائیں گے جیسے حماس کے حملے سے پہلے تھے؟
ابھی ایسا ہوتے ہوئے محسوس نہیں ہو رہا۔ اسرائیل کسی قسم کے سمجھوتے کے لیے تیار نہیں ہے جبکہ بے چین عرب حکومتیں سڑکوں پر بڑھتے ہوئے اسرائیل مخالف مظاہروں پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔
لیکن جب غزہ میں تنازع ختم ہو گا تو شاید سعودی عرب ہی وہاں کی تعمیر نو کے لیے فنڈنگ کرے گا۔ جو بھی مستقبل میں ہونے جا رہا ہے اس پر سعودی نقطہ نظر سمجھنے کے لیے شہزادہ ترکی کی تقاریر دیکھنے کے قابل ہوں گی۔
بدقسمتی سے جن دنوں غزہ اسرائیل جنگ چھڑتی تھی اسی دوران ریاض ڈے آگیا جس پر ہندوستان کے مفکر اور جید علماء میں شمار ہونے والے مولانا سجاد نعمانی نے ایک کھلا خط لکھ کر اکابرین امت سے مشورہ طلب کیاتھاکہ کیوںنہ سعودی سفارتخانے کے توسط سے سعودی حکمرانوں کو اس کی خرابی سے خبردار کیاجائے اور اس کی مذمت کی جائے، لیکن کاش کہ آنکھیں کھلی ہوتیں اور سلفیان ہند کی سعودی عرب کے تعلق سے موقف سمجھتے، سلفیان ہند نے ہمیشہ برائی کو تسلیم کیاہے اور وہ سعودی عرب کو معصوم عن الخطاء نہیں سمجھتے ، ہاں اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ انکا منکر علی المنابر ہو، احتجاج اور بغاوت کی شکل میں ہو، اور یہی شریعت کی بھی منشا رہی ہے، ایسے موقع پر ہم سجاد نعمانی کے مشورہ کو کنڈم کرتے ہیں۔
سجاد نعمانی کے سعودی عرب کے خلاف لکھے گئے خط پر تبصرہ
یہ حضرات براہ راست اسرائیلی سفارت خانہ جاکر وہاں احتجاج کیوں نہیں درج کراتے؟
جب ظالم کے نمائندے یہاں موجود ہیں تو سیدھے ان سے خطاب کرنے کی ہمت کیوں نہیں ہے؟
یا کوئی مصلحت اور خوف مانع ہے؟
یہ وہ غلیظ لوگ ہیں جو منہج اور مسلک کی غلاظت سے باہر نہیں آسکتے۔ ہر موقع بھونتے اور بھناتے رہتے ہیں۔
جب سعودی عرب میں یہ سب نہیں تھا تب بھی یہ اس کے اتنے ہی دشمن تھے۔ آج بھی ہیں۔ کل بھی رہیں گے۔ اس دشمنی اور نفرت کا تعلق ایمان و عقیدہ سے ہے۔ دینی اور بے دینی کا کوئی دخل نہیں ہے۔ سعودی سے گئے گزرے ذلیل و خبیث ممالک موجود ہیں جنکی یہ موقع بہ موقع مدح سرائی کرتے رہتے ہیں۔ سعودی عرب سے دشمنی ان کو وراثت میں ملی ہے۔ اس میراث کی حفاظت یہ فرض سمجھتے ہیں۔
اکثر سعودی مخالفین کا یہی حال ہے کہ ایک نفرت یا بغض و دشمنی ان کے دل میں موجود ہے اسی کو نکالنے کے لئے موقع تلاشتے رہتے ہیں۔ ورنہ جن کی اکثریت گلے گلے تک فسق و فجور میں ڈوبی ہو وہ بھی دین کے معاملہ پر سعودی عرب پر کس منہ سے طعن کرتے ہیں؟
جسے پانچ نمازیں باجماعت پڑھنے کی توفیق نہیں ہوتی وہ بھی سعودی عرب کو دین داری پر طعنہ دیتا ہے۔ وہ لوگ جو ہندی انگریزی نیلی پیلی ساری فلمیں شوق سے دیکھتے اور انجوائے کرتے ہیں وہ بھی سعودی عرب میں ہورہے ڈانس اور میوزک سے پریشان ہیں۔
اصل بے دین اور گرے ہوئے لوگ یہی ہیں جنہیں اپنے ضمیر تک کو ٹٹولنے کی فرصت نہیں۔ اپنے اعمال کی کوئی فکر نہیں۔ مگر سعودی عرب کی حکومت ان بے شرموں اور بے ضمیروں کی مرضی سے چلنی چاہیے۔
اس خبیث کی خباثت دیکھئے اور دین کے نام پر سوداگری کرتے ملاؤں کا مزاج، مکرو فریب اور خباثت سمجھئے!
اور انہیں بعض اخوان کی طرف سے دئے گئے جواب کا نذرانہ پیش کرتے ہیں جسے ان لوگوں کو پڑھ لینا چاہئے۔ جو سجاد نعمانی کے حامی ہیں۔
جناب عبدالسلام مدنی فیس بک کی وال پر لکھتے ہیں:
’’ملک عزیز میں ایک صاحب ہیں، ندوے سے فارغ ہیں،سجاد بھی ہیں اورسجادہ نشیں بھی،لانبے چوڑے صافے دار بھی ہیں
گاہے بہ گاہے نصیحتیں کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں
ان دنوں آں محترم کا ایک کھلا خط گردش میں ہے جس میں مملکت توحید کو پر زور لفظوں میں نصیحت کے لئے معدودے علماء کے جذبات کو للکارا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا مملکت سعودی عرب فلسطین کے مسلمانوں پر ہو رہے مظالم کے تعلق سے مہر بلب ہے؟
۔محترم کو خوب معلوم ہونا چاہئے کہ مملکت نے شروع دن سے ہی ف ل س طی نیوں کے امداد کے لئے اپنا مبارک دست دراز کیا ہوا ہے
اور آج ہی مملکت کے حکام کی طرف سے اعلانیہ تعاون جمع کرنے اور پھر تمام ائمہ و خطباء سے انفاق کی فضیلت و عظمت پر خطبات جمعہ کے لئے باقاعدہ ایک خاص سرکولر جاری کیا ہے
دنیا کا کونسا ایسا ملک ہے جہاں ایسا سرکولر جاری کیا گیا ہو
مولانا جس ملک میں رہتے ہیں، ظلم و ستم کی انتہا کر دی گئی ہے،خواتین کی عزتیں لوٹی جاتی ہیں، سر عام ننگا کرکے دوڑایا جاتا ہے،کیا کبھی ان کی رگ حمیت پھڑکی؟
کیا کبھی للکار کر کھلا خط لکھا گیا ؟
کیا کبھی ان مظالم کے خلاف وفد کی شکل میں حاکم وقت سے ملاقات فرمائی ؟
آخر مملکت توحید کے تل کا تاڑ ہی انہیں کیوں نظر آتا ہے؟
یہاں کا امن و امان ان کی آنکھوں میں کانٹا بن کر کیوں چبھتا ہے؟
کیا یہ مناسب نہ تھا کہ پہلے اپنے ملک کی خبر لیتے؟
وہاں کی سوچتے۔ وہاں کے مسلمانوں کے لئے کچھ فکر کرتے تو کتنا اچھا ہوتا
G 20 میں مملکت توحید کے ولی عہد نے گاندھی سمادھی میں حاضری نہ دے کر ایک تاریخ رقم فرمائی
یہ ایک تاریخی اقدام تھا مگر تعریف کے لئے اس سجادہ نشین جیسے گوشہ نشینوں کو ایک حرف لکھنے کی توفیق نہ مل سکی،مگر۔۔۔۔ سیزن انہیں وہیں سے نظر آگیا ۔
اسی طرح ڈاکٹر محمد وسیم لکھتے ہیں:
’’ہندوستان کے ایک عالمِ دین مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی صاحب نے اپنی طرف سے یہ لیٹرپیڈ جاری کیا ہے، جس میں اْنھوں نے سعودی عرب کے شہرِ ریاض میں ہو? میوزک پروگرام پر تنقید کر کے نیچے بعض اہم شخصیات کے نام بھی لکھے ہیں، انھوں نے اْن سے گزارش کی ہے کہ وہ میوزک پروگرام پر احتجاج درج کرائیں اور ہندوستان میں سعودی سفارت خانہ میں بھی یہ بات رکھیں
ہم سلفیوں اور اہلِ حدیثوں کے یہاں سب سے بڑی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے، اس کے بعد حضرت محمد صلّٰی اللہ علیہ وسلّم کی ذات ہے، ہمارے یہاں شخصیت پرستی اور وطن پرستی نہیں پائی جاتی ہے، دنیا کا چاہے کتنا بھی بڑا ولِی اور کتنی بھی بڑی شخصیت ہو، اْس کی بات کو بھی اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد صلّٰی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر فوقیت نہیں دیتے ہیں، اِس لیے اگر کوئی برائی یا گناہ کا کام سعودی عرب میں بھی ہو رہا ہے تو وہ غلط ہے
لیکن مولانا سجاد نعمانی صاحب سے سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کے مسلم ممالک میں صرف سعودی عرب ہی ایک ایسا ملک ابھی تک آپ کے سامنے نظر آیا ہے جہاں پر تاریخ میں پہلی بار میوزک کا پروگرام ہوا ہے؟ کسی اور مْلک میں میوزک پروگرام یا اس سے بھی خراب پروگرام ابھی تک نہیں ہوا؟ پاکستان میں آ? دن فتنہ رونما ہوتا رہتا ہے، ترکیہ اور ایران میں حکومتی سطح پر نہ جانے کتنی برائیاں ہوتی ہیں؟ تو کیا وہ سب غلط نہیں ہیں؟ ابھی ترکیہ نے اپنا سو سالہ جشن منایا ہے، تو ایسے ماحول میں کیا وہ غلط نہیں ہے؟
جی-20 میں سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان شریک ہوئے، لیکن عقیدۂ توحید کو فوقیت دیتے ہوئے وہ گاندھی کی سمادھی پر نہیں گئے، یہ ایک تاریخی عمل تھا، لیکن کیا اِس کی تعریف نہیں ہونی چاہیے تھی؟ ترکیہ کے صدر سمادھی پر گئے اور ساری رسومات ادا کیں؟ آپ نے اس عمل پر نصیحت یا تنقید کیوں نہیں کی؟ گزشتہ چند سالوں میں حوثیوں نے سعودی عرب اور خانِ کعبہ پر ایک ہزار سے زیادہ ڈرونز اور میزائل مارے ہیں، لیکن آپ نے کبھی اْن کی مذمت کی؟
یہ تو وہی بات ہوئی کہ سعودی عرب میں ہونے والی زِیرہ جیسی برائی بھی اور عملی کوتاہی بھی منھ اور گَلے میں اَٹک جاتی ہے، جب کہ ترکیہ، پاکستان اور ایران میں ہونے والی اونٹ جیسی برائیاں بھی گَلے سے نیچے اتر کر آرام سے ہضم ہو جاتی ہیں، اِس لیٹرپیڈ سے پتہ چلا کہ مولانا سجاد نعمانی صاحب کو جمعیتِ اہلِ حدیث کے نہ تو امیر کا نام معلوم ہے اور نہ ہی اْن کے عہدے کا پتہ ہے، دونوں غلط لکھا ہوا ہے، بَتانا چاہتا ہوں کہ وہ جمعیتِ اہلِ حدیث کے صدر نہیں بلکہ امیر ہیں، کم سے کم اِتنی بڑی جماعت کے امیر کا نام اور عہدہ معلوم ہی ہونا چاہیے
شہرِ فلسطین کے لیے ہم ہندوستانی مسلمانوں سے زیادہ قربانیاں سعودی عرب اور عرب ممالک نے دی ہیں اور دے رہے ہیں، انھوں نے اس کے لیے چار جنگیں لڑی ہیں، مسجدِ اقصیٰ کا انتظام و انصرام بھی عربوں کے پاس ہے، وہ فلسطین کے لیے اپنی طاقت بھر کوششیں کر رہے ہیں، جن پر نہ صرف انھیں کامیابی ملے گی، بلکہ انھیں ثواب بھی ملے گا، ان شاء اللہ۔

سچائی یہ ہے کہ تکلیف اور چڑھ اس میوزک کلچر سے نہیں ہے بلکہ وہاں کا عقیدہ ومنہج انہیں راس نہیں آرہاہے چنانچہ نازش ذہیب لکھتے ہیں:
٭اخوانی سعودی عرب سے نفرت کرتا ہے۔
٭تکفیری خوارج سعودی عرب سے نفرت کرتا ہے۔
٭عیسائی سعودی عرب سے نفرت کرتا ہے۔
٭یہودی سعودی عرب سے نفرت کرتا ہے۔
٭شیعی سعودی عرب سے نفرت کرتا ہے۔
٭صوفی سعودی عرب سے نفرت کرتا ہے۔
٭فرقہ پرست سعودی عرب سے نفرت کرتا ہے۔
٭علمانی سعودی عرب سے نفرت کرتا ہے۔
٭مشرک سعودی عرب سے نفرت کرتا ہے۔
٭مرتد سعودی عرب سے نفرت کرتا ہے۔
٭فاسق و فاجر سعودی عرب سے نفرت کرتا ہے۔
٭ملحد سعودی عرب سے نفرت کرتا ہے۔
٭بدکار زانی سعودی عرب سے نفرت کرتا ہے۔
یہ تمام ٹولہ سعودی عرب سے نفرت کرتا ہے بلکہ اپنی نفرت و کراہیت کا برملا اظہار بھی کرتا ہے۔
لیکن روئے زمین پر بسنے والا ہر ایک مسلم ،موحد سعودی عرب سے محبت کرتا ہے۔
کیوں ؟؟
کیونکہ وہ بلاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
وہاںوحی کا نزول ہوا۔
بلاد توحید ہے۔
بلاد حرمین شریفین ہے۔
وہیں اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیولادت با سعادت ہوئی۔
وہیں انہوں نے زندگی گزارا۔
وہیں پر انہیں نبوت ورسالت سے سرفراز کیا گیا۔
وہیں پر انہوں نے ہجرت فرمائی۔
وہیں پر انہوں نے جہاد کیا۔
وہیں پر انہوں نے توحید کی دعوت کو بلند کیا۔
اسی سرزمین پر انکی روح قبض کی گئی۔
اسی سرزمین میں دفن کئے گئے۔
اسی سرزمین پر بیشتر صحابہ کرام بھی مدفون ہیں۔
بیشتر علمائے اسلام مدفون ہیں۔
ہر سال لوگ انحائے عالم سے وہیں حج کی ادائیگی کیلئے جاتے ہیں۔
وہیں پرعمرہ ادا کیا جاتا ہے۔
وہیں پر طواف کعبہ کیا جاتا ہے۔
وہیں پر ” روضۃ من ریاض الجنۃ ” واقع ہے۔
وہاں طالبان علوم شریعت ہیں۔
علمائے ربانیین ہیں۔
ہر سال باقاعدہ حج پورے شان و شوکت سے ادا کیا جاتا ہے بغیر کسی خلل کے۔
پورا شعب ایک حکومت رشیدہ کے لوا کے ما تحت عزت و کرامت ، شرافت ونجابت اور سعادت کی زندگی بسر کرتا ہے۔
کوئی اختلاط نہیں مخلوط سرگرمی نہیں۔
کوئی شرک کا اڈہ ، قبہ و مزار اور آستانہ نہیں۔۔
کوئی شراب کی لائسنس یافتہ دکان اور ٹھیکہ نہیں۔
کوئی شذوذ اور جنس پرستی کی دعوت نہیں ترویج نہیں۔
مسلمانوں کو فتنہ و فساد اور شر و شرارت کے حوالے کرنے کا خفیہ اور اعلانیہ پلان نہیں۔
کیا یہ سب خوبصورت اور قابل تحسین و مبارک امور کوئی یہودی انجام دے سکتا ہے ؟۔
کیا یہودی نسل اور اصل کا بندہ شرک و بدعت سے جنگ کرسکتا ہے؟۔
کیا یہودی و صیہونی شخص توحید کی دعوت کی نشر و اشاعت کر سکتا ہے؟۔
کیا کوئی یہودی موسم حج کو کامیاب بنانے کیلئے اربوں ڈالر و ریال خرچ کر سکتا ہے؟۔
کیا کوئی یہودی شریعت کی تطبیق اور حدود و قصاص کا نفاذ کر سکتا ہے؟۔
کیا کوئی یہودی شرائع الہی کی اس قدر تعظیم کرسکتا ہے؟۔سبحان اللہ۔
بس دنیا میں اہل توحید کو ہی دیکھیں گے کہ وہ سعودی عرب سے محبت بھی کرتے ہیں اور اس کا دفاع بھی کرتے ہیں ۔
جاہل ، احمق ، بیوقوف، غدار ، خائن ،وطن اور ملت فروش کبھی ایسا نہیں کرسکتا وہ تو بس جھوٹی خبروں کے ذریعہ پروپیگنڈہ کریگا اور رسوائی و بدنامی کے مواقع تلاش کریگا اور اسکی شبیہ خراب کرنے کی ہر ممکن کوشش میں رہیگا۔
مجھے سعودی عرب سے اس لئے بھی محبت ہے کہ ہمارے جد امجد ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دعا مجھے لگی ہے۔
” فاجعل أفئدۃ من الناس تھوی الیھم” .۔
٭٭٭٭

Related posts

عظمت ِ والدین قرآن وسنت کی روشنی میں

Siyasi Manzar

امتحانات کے تناؤ سے نبردآزمائی: طلبا کی جسمانی و ذہنی تندرستی کے مابین توازن قائم کرنا ضروری

Siyasi Manzar

’چل اڑ جا رے پنچھی……‘

Siyasi Manzar

Leave a Comment