Siyasi Manzar
مضامین

’چل اڑ جا رے پنچھی……‘

پسِ آئینہ: سہیل انجم
ایسا لگتا ہے کہ کانگریس پر چھائی ہوئی خزاں کے ختم ہونے کے دن ابھی نہیں آئے ہیں۔ ایک سو اڑتیس سال پرانے اس تناور اور چھتنار درخت کے پتے یکے بعد دیگرے جھڑ رہے اور اس کی شاخوں پر بسیرا کرنے والے پرندے بہ زبانِ حال یہ کہتے ہوئے ایک ایک کرکے پھُر ہو رہے ہیں کہ ’چل اڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ‘۔ کل کوئی بڑا پرندہ اڑتا ہے تو آج کوئی دوسرا بڑا پرندہ۔ ظاہر ہے اڑنے والے یہ پرندے نئے آشیانوں کی تلاش کرتے ہیں اور پھر وہ بی جے پی کے پُربہار درخت کی کسی شاخ پر بیٹھ جاتے اور وہیں اپنا گھونسلہ بنا لیتے ہیں۔ اس درخت پر ان نئے آنے والے پرندوں کا پوری طرح پَر کھول کر استقبال کیا جاتا اور ان کے سامنے دانہ ڈال دیا جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس درخت کے حقیقی مکین اول الذکر درخت کے مکینوں کو کبھی دور سے تو کبھی نزدیک سے لالچ دلاتے ہیں اور اگر کوئی لالچ میں نہیں آتا تو اس پر صیاد سے جال ڈلوا دیتے ہیں۔ اور اس طرح اِس درخت کی شاخیں آنے والے پرندوں سے بھرتی چلی جا رہی ہیں۔ ادھر اول الذکر درخت کی شاخیں اپنی ویرانی کی کہانی سنا سنا کر تھک گئی ہیں مگر اس کے حقیقی مکینوں کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ نہ ہی ایسے پرندوں کو روکنے کی کوئی کوشش ہی کی جاتی ہے۔ بلکہ بعض اوقات تو خود اپنی ہی ڈال کے پرندوں کو اڑا دیا جاتا ہے۔
اس اجمال کی تفصیل یوں ہے کہ ابھی ابھی مہاراشٹرا کے دو بار کے کانگریسی وزیر اعلیٰ اشوک چوان اور ایک اور سینئر لیڈر اور سابق وزیر بابا صدیق نے پارٹی کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ بابا نے اجیت پوار کی این سی جوائن کر لی تو اشوک چوان نے بی جے پی۔ اشوک چوان آدرش سوسائٹی گھپلے میں ایک ملزم ہیں۔ ایک روز قبل حکومت نے جو وائٹ پیپر جاری کیا تھا اس میں اس گھوٹالے کا بھی ذکر تھا۔ شاید اسی لیے گھبرا کر انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کہیں ان کو بھی جیل نہ جانا پڑ جائے۔ ان سے پہلے آچاریہ پرمود کرشنم کو پارٹی مخالف سرگرمیوں کے الزام میں پارٹی سے نکال دیا گیا۔ ویسے آچاریہ جی ادھر کافی دنوں سے کانگریس کی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے راہل گاندھی کی دوسری یاترا پر بھی نکتہ چینی کی تھی اور کہا تھا کہ اس وقت جبکہ انتخابی مہم چلانے کی ضرورت ہے وہ یاترا پر نکل گئے ہیں۔ انھوں نے یہ تبصرہ بھی کیا تھا کہ کانگریس 2024 نہیں بلکہ 2029 کے الیکشن کی تیاری کر رہی ہے۔ ان کے ان بیانوں سے یہ لگ رہا تھا انھیں باہر کا راستہ دکھایا جانے والا ہے۔ اسی دوران وزیر اعظم سے ان کی ملاقات اور ان کی تعریفوں کے پل باندھنے کے معاملے نے کریلے کو نیم چڑھا کر دیا اور انھیں باہر کر دیا گیا۔ سینئر سیاست دانوں کی کانگریس سے علیحدگی دراصل اس سلسلے کی کڑی ہے جو ایک عرصے سے چل رہا ہے۔ قبل ازیں دس برسوں کے دوران آٹھ سابق کانگریسی وزرائے اعلیٰ پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ یہ ہیں: غلام نبی آزاد (جموں و کشمیر)، امریندر سنگھ (پنجاب)، وجے بہوگنا (اتراکھنڈ)، اجیت جوگی (چھتیس گڑھ)، ایس ایم کرشنا (کرناٹک)، نرائن رانے (مہاراشٹرا)، گردھر گمانگ (اڑیسہ) اور اب اشوک چوان (مہاراشٹرا)۔ جبکہ سابق مرکزی وزیر کپل سبل نے پارٹی اعلیٰ کمان کی پالیسیوں پر تنقید کرکے پنی راہ الگ بنائی۔ مدھیہ پردیش کے سینئر رہنما جیوترادتیہ سندھیا نے مارچ 2020 میں کانگریس کے بائیس ارکان اسمبلی کے ساتھ پارٹی چھوڑ دی جس کے نتیجے میں کمل ناتھ کی حکومت گر گئی۔ انھیں مرکز میں وزیر بنا دیا گیا۔ 2021 میں یوپی کانگریس کے سینئر رہنما جتن پرساد نے اسمبلی انتخابات سے قبل کانگریس چھوڑی۔ اس وقت وہ یوپی کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت میں وزیر ہیں۔ سشمتا دیو آل انڈیا مہیلا کانگریس کی چیف تھیں۔ انھوں نے اگست 2021 میں کانگریس چھوڑ کر ٹی ایم سی جوائن کی اور اب وہ راجیہ سبھا کی رکن ہیں۔ پرینکا چترویدی بھی شیو سینا میں چلی گئیں اور اس کی راجیہ سبھا رکن ہیں۔ مشرقی یوپی کے آر پی این سنگھ نے بی جے پی کا دامن تھام لیا اور اب انھیں راجیہ سبھا کے لیے نامزدکیا گیا ہے۔ ہریانہ کے سنیل جاکھڑ اور گجرات کے ہاردک پٹیل بھی بی جے پی میں جا چکے ہیں۔ کانگریس کے قومی ترجمان جے ویر شیر گل نے اگست 2022 میں بی جے پی جوائن کر لی۔ اسی سال جنوری میں مہاراشٹر کانگریس کے لیڈر ملند دیورا نے کانگریس چھوڑی اور ایکناتھ شنڈے گروپ کی شیو سینا جوائن کر لی۔ اس طرح دیکھا جائے تو کانگریس کے بے شمار بڑے رہنماؤں نے کانگریس کا دامن چھوڑ کر بی جے پی کا دامن تھامنے میں اپنے سیاسی مستقبل کا تحفظ جانا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ چند لوگ ہی غیر بی جے پی پارٹیوں میں شامل ہوئے ہیں ورنہ بیشتر نے بی جے ہی میں اپنی سیاسی بقا دیکھی۔ اب یہ الگ بات ہے کہ کچھ سیاست داں اصولوں سے بندھے ہوتے ہیں اور وہ خواہ کتنا ہی نقصان ہو جائے دوسرے نظریات کی پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کرتے۔ لیکن اب جس قسم کی سیاست کا دور ہے اس میں اصولوں اور قدروں کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی۔ پہلے بھی اصولوں کے بجائے مفادات پر جان دینے والے سیاست داں رہے ہیں لیکن ان کی تعداد کم تھی۔ اب ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
جب نریند رمودی مرکز میں برسراقتدار آئے تھے تو انھوں نے ’کانگریس مکت بھارت‘ کا نعرہ دیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ مسلسل اس مہم میں مصروف ہیں اور اس میں ان کے دائیں بازو امت شاہ اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر ہم کانگریس اور بی جے پی کی سیاست کا جائزہ لیں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ بی جے پی کہیں زیادہ عملی سیاست کر رہی ہے۔ جبکہ کانگریس اس معاملے میں اس سے بہت پیچھے ہے۔ بی جے پی نے ٹھان لیا ہے کہ اسے 2024 میں بھی جیتنا ہے اور تیسری بار مرکز میں حکومت بنانی ہے۔ اس کے لیے جو بھی ضروری ہے وہ قدم اٹھا رہی ہے۔ وہ ایک ایک ووٹ پر نظریں گڑائے ہوئے ہے اور کس سیاست داں کو پارٹی میں شامل کرنے پر کہاں اور کتنے ووٹ ملیں گے اس کا پورا حساب کتاب اس کے پاس ہے۔ جب اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد ’انڈیا‘ قائم ہوا تھا تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ محاذ بی جے پی کے راستے میں ایک کوہِ گراں ثابت ہوگا اور بی جے پی کے لیے اسے عبور کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ لیکن جس طرح بی جے پی اس اتحاد کو کمزور کرنے بلکہ توڑنے میں کامیاب ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ خواہ اس کے لیے ملک کے اعلیٰ سول اعزاز ’بھارت رتن‘ کو ’سیاسی رتن‘ میں تبدیل کرنا ہو یا پھر ای ڈی کو پیچھے لگانا ہو، وہ کوئی بھی حربہ چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔ لیکن کانگریس کا معاملہ یہ ہے کہ جیسے اسے اپنے سینئر رہنماؤں کے پارٹی چھوڑنے کا کوئی غم نہیں ہے۔ اسے ناراض لوگوں کو منانے کی کوئی فکر بھی نہیں ہے۔ وہ ایسا کوئی قدم بھی نہیں اٹھا رہی ہے جس سے جانے والوں کو روکا جا سکے۔ پرمود کرشنم کی یہ بات سچ معلوم ہوتی ہے کہ کانگریس 2029 کے الیکشن کی تیاری کر رہی ہے۔ لیکن کانگریس اعلیٰ کمان کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس کا وجود بچے گا جب تو وہ اگلا الیکشن لڑ پائے گی۔ اگر مودی اپنی مہم میں کامیاب ہو گئے تو کانگریس کا دائرہ اثر علاقائی پارٹیوں سے بھی محدود ہو جائے گا۔ یہ بات درست ہے کہ اس وقت انتخابی مہم چلانے کی ضرورت ہے یاترا نکالنے کی نہیں۔ راہل گاندھی کو یاترا کی نہیں انتخابی مہم کے تحت ملک گیر دورہ کرنے کی ضرورت تھی۔ اسی کے ساتھ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کانگریس جب تک اپنی پالیسی نہیں بدلے گی کامیاب نہیں ہوگی۔ صرف نریندر مودی اور ان کی حکومت کو برا بھلا کہنے سے عوام کے دل جیتے نہیں جا سکتے۔ ادھر کانگریس پر بی جے پی کا حملہ کثیر رخی ہے۔ وزیر اعظم مودی صرف کیڑے نہیں نکالتے بلکہ حکومت میں رہنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عوامی فلاح و بہبود کے پروگرموں کا اعلان بھی کرتے ہیں۔ بہرحال کانگریس اور بی جے پی کی حکمت عملی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جب تک کانگریس حالات کے تقاضے کے تحت حکمت عملی مرتب نہیں کرے گی اس پر چھائی ہوئی خزاں بہار میں تبدیل نہیں ہوگی۔

Related posts

امتحانات کے تناؤ سے نبردآزمائی: طلبا کی جسمانی و ذہنی تندرستی کے مابین توازن قائم کرنا ضروری

Siyasi Manzar

بنتی نہیں ہے بات مسلماں کہے بغیر!

Siyasi Manzar

اسلام امن و سلامتی کا مذہب

Siyasi Manzar

Leave a Comment