دنیا کی کسی بھی مستند مذہبی کتاب میں یہ کہیں مذکور نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ۲۵ دسمبر کو پیدا ہوئے تھے
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
(www.najeebqasmi.com)
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی پیدائش کا جو عمومی ضابطہ بنایا ہے، وہ یہ ہے کہ مرد وعورت کا نکاح کرکے صحبت کرنا، اس کے بعد اللہ کے حکم سے حمل ٹھہرنا اور ولادت کا ہونا۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے اس ضابطہ کے علاوہ بھی بعض انسانوںکی تخلیق کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اس طرح پیدا فرمایا کہ اُن کی پیدائش میں نہ کسی مرد کا کوئی دخل تھا، نہ کسی عورت کا۔ حضرت حوا کو چونکہ حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کیا تھا، اس لئے ان کی پیدائش میں مرد کا تو فی الجملہ دخل تھا، عورت کا کوئی دخل نہیں تھا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو باپ کے بغیر صرف ماں (حضرت مریم بنت عمران علیہا السلام) سے فلسطین کے مشہور شہر ’’بیت لحم‘‘ میں پیدا فرمایا، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران آیت ۵۹ میں بیان فرمایا کہ اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم جیسی ہے، اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا کیا،پھر اُن سے کہا کہ ہوجاؤ، بس وہ ہوگئے۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں تمام مسلمانوں کا یہ ایمان ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے رسول اور نبی ہیں۔ قرآن کریم میں تقریباً ۲۵ جگہوں پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام ذکر ہوا ہے۔ اور اُن کو پھانسی نہیں دی گئی، بلکہ انہیں آسمانوں میں اٹھالیا گیا اور اُن جیسے ایک دوسرے شخص کو پھانسی دی گئی تھی، جیساکہ سورۃ النساء آیت ۱۵۷ اور ۱۵۸ میں اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا: انہوں نے عیسیٰ کو نہ قتل کیا تھا، اور نہ انہیں سولی دے پائے تھے، بلکہ انہیں اشتباہ ہوگیا تھا۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے وضاحت کے ساتھ بیان فرمادیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی نہیں دی گئی تھی، بلکہ انہیں اوپر اٹھالیا تھا۔ اس واقعہ کی پوری تفصیل نبی اکرم ﷺ نے بیان فرمائی ہے جو احادیث میں موجود ہے۔ نیز احادیث میں ہے کہ قیامت سے قبل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول دمشق کے مشرق میں سفید مینار پر ہوگا، اور پھر اُن کی سرپرستی میں دنیا کے چپہ چپہ پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تاریخ ولادت کے متعلق کوئی تحقیقی بات کسی بھی مذہب کی مستند کتاب میں موجود نہیں ہے حتی کہ عیسائیوں کی کتاب میں بھی یہ ذکر نہیں ہے کہ ۲۵ دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی، لیکن کسی دلیل کے بغیر عیسائیوں نے ۲۵ دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تاریخ پیدائش تسلیم کرلی ہے۔ حالانکہ قرآن وحدیث اوراسی طرح بائیبل سے جو اندازہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش گرمی کے موسم میں ہوئی تھی۔ بائیبل (باب ۲ آیت ۸) میں ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام رات میں پیدا ہوئے تو اُس وقت چرواہا اپنی بھیڑوں کو باہر چرا رہا تھا۔ بیت لحم میں دسمبر کے آخری ایام میں اتنی برف باری ہوتی ہے کہ کوئی شخص اپنے گھر سے بھی باہر نہیں نکل سکتا۔ اور بابئیل میں ہے کہ چرواہا اپنی بھیڑوں کو باہر چرارہا تھا، دسمبر کے مہینے میں بیت لحم (فلسطین) میں سخت برف باری کی وجہ سے رات کے وقت بھیڑوں کو باہر چرانا ممکن ہی نہیں ہے۔ نیز قرآن کریم (سورۃ مریم آیت ۲۵) میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے فوراً بعد حضرت مریم سے کہا کہ تم کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلاؤ، اس میں سے پکی ہوئی تازہ کھجوریںتم پر جھڑیں گی، اس کو کھاؤ۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ کھجوریں سردیوں کے موسم میں نہیں بلکہ گرمیوں کے موسم میں پکتی ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی متعدد دلائل ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش گرمیوں میں ہوئی۔
عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جنا (معاذ اللہ)، یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں، جس کی (سورۃ مریم ۸۸۔۹۲) میں بہت سخت الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے تردید کی ہے: یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد ہے، (ایسی بات کہنے والو!) حقیقت یہ ہے کہ تم نے بڑے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے، کچھ بعید نہیں کہ اس کی وجہ سے آسمان پھٹ پڑیں، زمین پھٹ جائے، اور پہاڑ ٹوٹ ٹوٹ کر گر پڑیں، کہ لوگوں نے اللہ کے لئے اولاد کا دعویٰ کیا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو ۔ سورۃ الاخلاص میں بھی اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں بیان کردیا کہ اللہ کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ غرضیکہ قرآن وحدیث کی واضح تعلیمات کی روشنی میں تمام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے نہیں ہیں، بلکہ بشر ہیں، اور اس میں کوئی بھی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا ہے۔
عیسائی لوگ ۲۵ دسمبر کو اس یقین کے ساتھ Merry Christmas مناتے ہیںکہ ۲۵ دسمبر کو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جنم دیا نعوذ باللہ۔ ہم اُن کے مذہب میں کوئی مداخلت نہیں کرنا چاہتے، لیکن ہمارا یہ دینی فریضہ ہے کہ اس موقع پر منعقد ہونے والی اُن کی مذہبی تقریبات میں شرکت نہ کریں اور نہ کسی شخص کو Merry Christmas کہہ کر مبارک باد پیش کریں، کیونکہ یہ جملہ قرآن وحدیث کی روح کے سراسر خلاف ہے۔ ہاں اگر آپ کا کوئی پڑوسی یا ساتھی عیسائی ہے اور وہ اس موقع پر Merry Christmasکہتا ہے تو آپ خوش اسلوبی کے ساتھ دوسرے الفاظ (مثلاً شکریہ) کہہ کر کنارہ کشی اختیار کرلیں کیونکہ جس عقیدہ کے ساتھ Merry Christmas منایا جاتا ہے وہ قرآنی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ آپ کو اپنے پڑوسی یا ساتھی کی فکر ہوسکتی ہے، لیکن دوسری طرف اللہ کی ناراضگی اور سخت عذاب کا بھی معاملہ ہے ، اس لئے واضح الفاظ میں اُن سے کہہ دیا جائے کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام باوجویکہ ایک برگزیدہ رسول اور نبی ہیں، وہ اللہ کے بیٹے نہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق نصاریٰ اور مسلمانوں کے درمیان چند عقائد میں شدید اختلاف ہے:
۱) نصاریٰ (عیسائیوں ) کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں، جبکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بیٹا یا بیٹی نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مرتبہ اس کے متعلق وضاحت فرمادی ہے۔ سورۃ الاخلاص میں بھی اللہ تعالیٰ نے عقیدۂ توحید کو علی الاعلان ذکر فرمادیا کہ اللہ تعالیٰ کی نہ کوئی اولاد ہے، اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے حضرت آدم علیہ السلام کو کسی مرد یا عورت کے بغیر پیدافرمایا، اور حضرت حوا کو کسی عورت کے بغیر اپنے حکم سے پیدا فرمایا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلا م کو کسی مرد کے بغیر اپنے حکم سے صرف عورت (حضرت مریم علیہا السلام) کے ذریعہ پیدا فرمایا۔ نصاریٰ (عیسائی حضرات) حضرت آدم اور حضرت حوا کو اللہ کا بیٹا یا بیٹی تسلیم نہیں کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو کسی مرد یا عورت کے بغیر اور حضرت حوا کو کسی عورت کے بغیر پیدا کیا، تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کو صرف کسی مرد کے بغیر پیدا کیا گیا، وہ اللہ تعالیٰ کے بیٹے کیوں ہوگئے؟ عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جو ذاتِ اقدس خالق ومالک ورازق کائنات ہو اُس کی یہ شان نہیں کہ اس کی کوئی اولاد ہو یا وہ کسی کی اولاد ہو۔
۲) نصاریٰ (عیسائیوں ) کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ساتھ معبودیت میں بھی شریک ہیں۔ تثلیث (Trinity) مسیحیت کا ایک لازمی جز ہے، جس کا مطلب ہے ایک میں تین یا تین میں ایک۔ نصاریٰ اللہ تعالیٰ کو ایک تو مانتے ہیں لیکن ایک میں تین ہستیوں کو شامل کرتے ہیں۔ خدا باپ، خدا بیٹا اور خدا روح القدس۔ آج بھی عیسائی لوگ اسی موقف پر قائم ہیں۔ جبکہ اسلام میں تثلیت (Trinity) کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن کریم کی سیکڑوں آیات میں اس عقیدہ کی تردید کی گئی ہے۔ اسلام میں وحدانیت ہے، اللہ کی ذات یا صفات میں کوئی شریک نہیں ہے۔ سورۃ مریم میں اس عقیدہ کو اتنا بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے کہ جس کی پاداش میں یہ پوری کائنات ہی ختم کردی جاتی۔
۳) نصاریٰ (عیسائیوں) کا عقیدہ ہے کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر لٹکاکر قتل کردیا تھا۔ لیکن قرآن وحدیث کی واضح تعلیمات کی وجہ سے پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ قتل کیا گیا، اور نہ ہی انہیں سولی دی گئی، بلکہ انہیں اس سے قبل ہی اوپر اٹھالیا تھا اور اُن جیسے ایک دوسرے شخص کو پھانسی دی گئی تھی۔ قیامت سے قبل انہیں دوبارہ نازل کیا جائے گا۔ وہ شریعت محمدیہ پر خود بھی عمل کریں گے اور قرآن وحدیث کی تعلیمات کو ہی پوری دنیا میں نافذ فرمائیں گے۔
۴) عیسائی حضرات کا یہ عقیدہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ اللہ کے رسول نہیں ہیں، اور اُن کو نبی ورسول ماننے والا عیسائی مذہب سے ہی نکل جاتا ہے، جبکہ مذہب اسلام میں حضور اکرم ﷺ کو آخری نبی ورسول تسلیم کرنے کے ساتھ حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام جیسے دیگر انبیاء کرام پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ اب آپ خود فیصلہ کرلیں کہ شدت پسندی کہاں ہے؟
خلاصۂ کلام: نئے سال کے موقع پر مبارک باد پیش کرنا بھی یقینا غیروں کا طریقہ ہے لیکن اس کی رسومات وتقاریب کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہے بلکہ وہ اِن دِنوں ایک سماجی مسئلہ بن گیا ہے، جس کی وجہ سے نئے سال کے موقع پر مبارک باد پیش کرنا حرام تو نہیں ہے لیکن پھر بھی قرآن وحدیث میں آخری نبی کے اسوہ کو اختیار کرنے اور غیروں کے طریقوں کو اختیار نہ کرنے کی بار بار تعلیمات دی گئی ہیں، اس لیے بچنا ہی چاہئے کیونکہ تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفیﷺ اور صحابۂ کرام، اسی طرح مفسرین، محدثین اور علماء کرام سے سال کی ابتدا حتی کہ ہجری سال کے شروع ہونے پر بھی مبارک باد پیش کرنا ثابت نہیں ہے۔ مگر ۲۵ دسمبر کو Merry Christmas کہہ کر مبارک باد پیش کرنا سو فیصد ایک مذہبی مسئلہ ہے۔ جس عقیدہ کے ساتھ عیسائی لوگ Merry Christmas کہہ کر کرسمس ڈے مناتے ہیں وہ اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے کیونکہ عیسائی حضرات کا عقیدہ ہے کہ ۲۵ دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اور اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے باپ ہیں۔ نیز وہ عقیدہ تثلیث (Trinity) کے بھی قائل ہیں، یعنی اُن کے مذہب میں ذات باری ایک کے بجائے تین ہستیوں پر مشتمل ہے: خدا باپ، خدا بیٹا اور خدا روح القدس۔ یہ عقیدہ انتہائی خطرناک اور قرآن وحدیث کی واضح تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ مگر انتہائی افسوس اور فکر کی بات ہے کہ اس موقع پر بعض مسلمان بھی آپس میں ایک دوسرے کو Merry Christmas کہہ کر مبارک باد پیش کرنا شروع کردیتے ہیں، جس کی مذہب اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا اس موقع پر مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو مبارک باد ہرگز پیش نہ کریں۔ اور جو مسلم بھائی مغربی ممالک میں رہتے ہیں یا عیسائیوں کے ساتھ پڑھتے ہیں یا ملازمت کرتے ہیں یا کاروبار کرتے ہیں تو انہیں بھی اس موقع پر Merry Christmas کہہ کر مبارک باد پیش کرنے میں سبقت نہیں کرنی چاہئے۔ اگر وہ مبارک باد پیش کریں تو خوش اسلوبی کے ساتھ اُن کے جواب میں دیگر دعائیہ کلمات پیش کردیں۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین فرمالیں کہ دنیا کی کسی بھی مستند مذہبی کتاب حتی کہ انجیل کتاب کے موجود زمانہ میں پائے جانے والے ہزاروں مختلف نسخوں میں یہ کہیں مذکور نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ۲۵ دسمبر کو پیدا ہوئے تھے۔
(قلم کارکے نظریات ان کے اپنے ذاتی ہیں ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)