Siyasi Manzar
مضامین

جن نائک کرپوری ٹھاکرکی 100ویں سالگرہ پر وزیراعظم نریندرمودی کاخراج تحسین

نریندر مودی، وزیراعظم ہند
آج جن نائک کرپوری ٹھاکر جی کی صد سالہ یوم پیدائش ہے ، جن کی سماجی انصاف کی انتھک کوششوں نے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں پر مثبت اثرات مرتب کئے ہیں۔ مجھے کرپوری جی سے ملنے کا کبھی موقع نہیں ملا لیکن، میں نے کیلاش پتی مشرا جی سے ان کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے ، جنہوں نے ان کے قریب رہتے ہوئے ان کے ساتھ کام کیا ہے ۔ ان کا تعلق سماج کے سب سے پسماندہ طبقے یعنی نائی سماج سے تھا۔ بے شمار مشکلات،مصائب اور رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے انہوں نے بہت سی کامیابیاں حاصل کیں اور سماج کے فلاح و بہبود کے لیے جی جان سے کام کیا۔
جان نائک کرپوری ٹھاکر جی کی زندگی سادگی اور سماجی انصاف کے جڑواں ستونوں کے گرد گردش کرتی ہے ۔ آخری سانس تک ان کا سادہ طرز زندگی اور شائستہ طبیعت،عام لوگوں کے دل کی گہرائیوں سے گونجتی رہی ہے ۔ ان کی سادگی کو اجاگر کرنے والے بے شمار واقعات ہیں۔ ان کے ساتھ کام کرنے والوں کو یاد ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی سمیت، کسی بھی ذاتی معاملے کے لیے ، اپنا ہی پیسہ خرچ کرنے کو ترجیح دی۔ بہار کے وزیر اعلی کے طور پر ان کے دور میں سیاسی رہنماؤں کے لیے کالونی بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، لیکن انھوں نے خود اس کے لیے کوئی زمین یا پیسہ نہیں لیا۔ 1988 میں جب ان کا انتقال ہوا تو کئی رہنما خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کے گاؤں گئے ۔ ان کے گھر کی حالت دیکھ کر رونے لگے – اتنے بلند و بالا قامت والے شخص کے پاس اتنا سادہ گھر کیسے ہو سکتا ہے !ان کی سادگی کا ایک اور واقعہ 1977 میں اس وقت کا ہے ، جب انہوں نے ابھی بہار کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا تھا۔ دہلی اور پٹنہ میں جنتا پارٹی کی حکومت تھی۔ اس وقت جنتا پارٹی کے لیڈران لوک نائک کی سالگرہ کے موقع پر پٹنہ میں جمع ہوئے تھے ۔ سرکردہ رہنماؤں کی کہکشاں کے درمیان وزیراعلی کرپوری ٹھاکر جی پھٹا ہواکُرتاپہنے ،لوگوں کے ساتھ ساتھ چلتے رہے ۔ چندر شیکھر جی نے اپنے مخصوص انداز میں لوگوں سے کچھ رقم عطیہ کرنے کو کہا تاکہ کرپوری جی نیا کرتا خرید سکیں۔ لیکن کرپوری جی تو کرپوری جی تھے – انہوں نے رقم قبول کر لی لیکن اسے وزیر اعلی کے راحت فنڈ میں عطیہ کر دیا۔جن نائک کرپوری ٹھاکر جی کو سماجی انصاف سب سے زیادہ عزیز تھا۔ ان کا سیاسی سفر ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی یادگار کوششوں سے نشان زد ہے ، جہاں وسائل کی منصفانہ تقسیم ہواورہرایک کو، ان کی سماجی حیثیت سے بالاتر، مواقع تک یکساں رسائی حاصل ہو۔ وہ نظام میں در آئے عدم مساوات کو ختم کرنا چاہتا تھے ، جس سے ہندوستانی سماج دوچار تھا۔
اپنے نظریات کے ساتھ ان کی وابستگی ایسی گہری تھی کہ ایک ایسے دور میں رہنے کے باوجود، جہاں کانگریس پارٹی ہر جگہ موجود تھی، انہوں نے واضح طور پر کانگریس مخالف راستہ اختیار کیا کیونکہ انہیں بہت جلد ہی اس بات کایقین ہو گیا تھا کہ کانگریس اپنے بنیادی اصولوں سے ہٹ گئی ہے ۔
ان کے انتخابی کیریئر کا آغاز 1950 کی دہائی کے اوائل میں ہوا اور اس کے بعد سے ، وہ قانون ساز ایوانوں میں، محنت کش طبقے ، مزدوروں، چھوٹے کسانوں اور نوجوانوں کی جدوجہد کو طاقتور انداز میں اجاگر کرنے کی طاقت بن گئے ۔ تعلیم کا موضوع ان کے دل کی گہرائیوں میں رچا بسا ہواتھا۔ اپنے پورے سیاسی کیریئر کے دوران، انہوں نے غریبوں کے لیے تعلیمی سہولیات کو بہتر بنانے کے لیے کام کیا۔ وہ مقامی زبانوں میں تعلیم کے حامی تھے ، تاکہ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں کے لوگ، اس راہ کو اختیار کرکے کامیابی سے ہمکنار ہو سکیں۔ بطور وزیراعلیٰ، انہوں نے بزرگ شہریوں کی بہبود کے لیے بھی بہت سے اقدامات کیے ہیں۔
جمہوریت، بحث و مباحثہ اور تبادلہ خیال کرنا، کرپوری جی کی شخصیت کے لیے لازم و ملزوم امرتھے ۔ یہ جذبہ اس وقت اجاگر ہو کر سامنے آیا جب انہوں نے ایک نوجوان کے طور پر ’بھارت چھوڑو تحریک‘کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیا تھا اور یہ جذبہ دوبارہ اس وقت سامنے آیا جب انہوں نے ایمرجنسی کے مضمر اثرات کے خلاف وسیع مزاحمت کی۔ جے پی، ڈاکٹر لوہیا اور چرن سنگھ جی جیسے لوگ ان کے اس منفرد نقطہ نظر کی ستائش کرنے والوں میں شامل تھے ۔
شاید،جن نائک کرپوری ٹھاکر جی کی ہندوستان کے لیے سب سے اہم حصہ رسدی میں سے ایک، پسماندہ طبقات کے لیے اس امید کے ساتھ، مثبت کارروائی کے آلات کو مستحکم کرنے میں ان کا کردار تھا، کہ انھیں وہ نمائندگی اور مواقع فراہم کیے جائیں گے ، جس کے وہ حقدار تھے ۔ ان کے اس فیصلے کی شدید مخالفت ہوئی، لیکن وہ کسی دباؤ کے سامنے نہیں جھکے ۔ ان کی قیادت میں، ایسی پالیسیاں نافذ کی گئیں جنہوں نے ایک زیادہ جامع معاشرے کی بنیاد رکھی، جہاں کسی کی پیدائش کسی کی قسمت کا تعین نہیں کرتی تھی۔ وہ معاشرے کے پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتے تھے لیکن انہوں نے تمام لوگوں کے لیے کام کیا۔ ان کی شخصیت میں تلخی کا کوئی بھی نام و نشان نہیں تھا؛یہی امر انہیں واقعی عظیم شخصیت بناتی ہے ۔پچھلے دس سالوں میں ہماری حکومت، جن نائک کرپوری ٹھاکر جی کے راستے پر چلی ہے ، جس کی عکاسی ہماری اسکیموں اور پالیسیوں سے ہوتی ہے ، جنہوں نے تبدیلی کو بااختیار بنایا ہے ۔ ہماری سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ کرپوری جی جیسے چند لیڈروں کو چھوڑ کر، سماجی انصاف کی پکار کو سیاسی نعرے تک ہی محدود رکھا گیا۔ کرپوری جی کے وژن سے متاثر ہو کر، ہم نے اسے ایک موثر حکمرانی کے ماڈل کے طور پر نافذ کیا۔ میں مکمل اعتماد اور فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جن نائک کرپوری ٹھاکر جی کو پچھلے چند سالوں میں 25 کروڑ لوگوں کو غربت کے چنگل سے آزاد کرانے کے ہندوستان کے کارنامے پر بہت فخر ہوا ہوگا۔ یہ معاشرے کے انتہائی پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ ہیں، جنہیں نوآبادیاتی راج سے آزادی کے تقریباً سات دہائیوں بعد بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا۔ اس کے ساتھ ہی، ہر اسکیم کو 100فیصد کوریج تک یقینی بنانے کی سماجی بہبود کے لیے -سیچوریشن کی ہماری کوششوں میں، سماجی بہبود کے تئیں ان کے عزم کی بازگشت ہے ۔ آج، جب او بی سی، ایس سی اور ایس ٹی کمیونٹیز کے لوگ مُدرا لون کی وجہ سے کاروباری بن رہے ہیں، یہ امرکرپوری ٹھاکر جی کے معاشی آزادی کے وژن کو پورا کرتا ہے ۔ اسی طرح یہ ہماری حکومت ہی ہے جسے ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی ریزرویشن میں توسیع کرنے کا اعزاز حاصل ہے ۔ ہمیں او بی سی کمیشن کے قیام کا اعزاز بھی حاصل ہوا (افسوس کہ، جس کی کانگریس نے مخالفت کی)، جو کرپوری جی کے دکھائے ہوئے راستے پر کام کر رہا ہے ۔ ہماری پی ایم وشوکرما اسکیم،ملک بھر میں او بی سی برادریوں سے تعلق رکھنے والے کروڑوں لوگوں کو خوشحالی کی نئی راہ دکھائے گی۔
خود ایک پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے فرد کے طور پر، میں جن نائک کرپوری ٹھاکر جی کا بہت شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ بدقسمتی سے ، ہم نے کرپوری جی کو 64 سال کی نسبتاً کم عمر میں ہی کھو دیا۔ ہم نے انہیں ایسے وقت کھو دیا جب ہمیں ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ اس کے باوجود بھی وہ اپنے کام و کردارکی وجہ سے کروڑوں لوگوں کے دل و دماغ میں زندہ ہیں۔ وہ ایک سچے جن نائک تھے !
٭٭٭٭٭

Related posts

اتراکھنڈ حکومت کا یکساں سول کوڈ ایک سیاسی چال اور متاکشرا اسکول کے پیروکاروں کیلئے نقصاندہ

Siyasi Manzar

کیوں جنگلات کی حفاظت نہیں کی جاتی؟

Siyasi Manzar

کیا تلنگانہ میں بی آر ایس اور کانگریس میں کانٹے کا مقابلہ ہوگا؟

Siyasi Manzar

Leave a Comment