Siyasi Manzar
مضامین

عورتوں کو میراث سے محروم کرنا گناہ عظیم ہے

اسلامی شریعت میں علم فرائض اور تقسیم میراث کی بڑی اہمیت ہے، میراث کا تعلق اس مالی حق سے ہے جو کسی مر جانے والے کی چھوڑی ہوئی جائیداد میں اس کے وارثین اور دیگر اقرباء کو اللہ رب العالمین نے عطا فرمایاہے،جسے شریعت کی اصطلاح میں
” ترکہ” یعنی چھوڑی ہوئی جائداد بھی کہا جاتا ہے۔عام طور پر ہمارے یہاں کسی کی وفات پانے کے بعد عورتوں کو چھوڑ کر اہل خانہ کے مرد حضرات بھائیوں اور بیٹوں کی شکل میں جمع ہو کر آپس میں میراث کی تقسیم کر لیتے ہیں جو کہ صحیح عمل نہیں ہے، اسلامی شریعت میں اللہ رب العالمین نے مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی حق عطا فرمایا ہے اور میراث میں ان کو بھی حصہ دار بنایاہے، یہ تو زمانہ جاہلیت کا طور طریقہ تھا کہ نابالغ اور کمزوروں کے مقابلے میں کسی کے مرنے کے بعد طاقتور اور بالغ حضرات بڑے بھائی ،بڑے بیٹے وغیرہ کی شکل میں جائیداد پر قبضہ کر لیتے تھے یا عورتوں کو درکنار کر کے صرف مرد حضرات کوہی اس کا حق دیا جاتا تھا نہ اس میں بیٹی کا، نہ بہنوں کا، نہ ماں کا، نہ بیوہ بیوی کا کوئی حق اور رائٹ ہوتا تھا ،چنانچہ اسی نا انصافی اور ظلم پر مبنی رسم و رواج کو اسلامی شریعت نے حق میراث اور متروکہ جائیداد میں مقررہ حصوں کی تعیین کے ذریعےختم فرما دیا۔ سورہ نساء کی آیت نمبر7 سے لے کر کے 11 ۔12 اوراسکی آخری آیت میں اللہ رب العالمین نے ان کا تفصیلی بیان فرمایا اور یوں میراث کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے اللہ رب العالمین نے اسے” نصیبامفروضا”کہا یا "فریضۃ من اللہ”قرار دیا کہ یہ اللہ رب العالمین کی طرف سے فرض کردہ اور مقرر کردہ حصہ ہے جس میں کمی اور زیادتی کی کوئی گنجائش نہیں ۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور رسالت میں جب تک میراث کا حکم نازل نہیں ہوا تھا تو بہت سارے طریقے میراث کے رائج تھے، ہجرت کے بعد غزوہ احد کا معرکہ پیش انے پر اس میں ایک مشہور صحابی حضرت سعد بن ربیع کی شہادت ہو گئی چنانچہ ان کی شہادت کے بعد ان کے بھائی نے ان کی پوری جائیداد پر قبضہ کر لیا اور ان کی بیٹیوں اور بیوہ کو جائیداد سے محروم ہونا پڑا اور اس طریقے سے حضرت سعد بن ربیع رض کی بیوہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں فریاد لے کر آئیں لیکن چونکہ اللہ رب العالمین کی طرف سے کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کا انتظار فرمایا ،چنانچہ کچھ دنوں کے بعد میراث کی آیات نازل ہوئیں اور اس کی روشنی میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹیوں کو اور ان کی بیوی کو میراث میں جو حصہ اللہ رب العالمین نے مقرر کیا تھا اسے دینے کا حکم عطا فرمایا
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کی زندگی میں پورے انصاف اور عدل کے ساتھ عورتوں کو ان کا حق میراث دیا جاتا رہا،آج بھی بہت سارے ممالک میں عورتوں کو ان کا شرعی حق جیسا اللہ رب العالمین نے مقرر کیا ہے دیا جا رہا ہے ،ہماری اور آپ کی بد قسمتی یہ ہے کہ ہم رسم و رواج کے بہت زیادہ پابند ہو چکے ہیں اور انہی رسم و رواج کے چکروں میں پڑ کر ہم نے اپنی بیٹیوں، اپنی ماؤں اور اپنی بہنوں کو بھی کسی نہ کسی حیلے اور بہانے سے میراث سے محروم کررکھا ہےاور صرف یہ معاملہ معافی تلافی کی حد تک رہتا ہے حالانکہ یہ ان کا حق ہے کہ جب جائیداد کی تقسیم کی جائے تو انہیں بھی مشاورت میں اور میراث کے بٹوارے میں شریک رکھا جائے اور ان کا جو بھی حق ہے اسے نکال کرانھیں دے دیا جائے ۔یہ دین اسلام کے محاسن میں سے ہے کہ اس نے عورتوں کو حق ملکیت، حق میراث اور حق تصرف عطا فرمایا جو کہ سابقہ ادیان میں کسی اور جگہ پوری وضاحت کے ساتھ عورتوں کے تعلق سے موجود نہیں تھا اور عورت کو انتہائی ناقص،ذلیل اور رسوا ذات تصور کیا جاتا تھا لیکن دین اسلام نے اور ہمارے آخری نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو بہت بڑا مقام عطا فرمایا، ان کی تکریم کی اور ذلت و خواری سے ان کو نکال کر کے نیک نامی اور عزت کی بلندی پر قائم اور دائم فرمایا اور یہ اسی کا ایک حصہ ہے کہ عورتوں کو کمتر اور حقیر سمجھنے کی وجہ سے ان کو حق میراث اور حق مال سے محروم کر دیا گیا تھا چنانچہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عزت اور تکریم عورتوں کو عطا کی کہ ان کو نہ صرف یہ کہ میراث میں حقدار ٹھہرایا بلکہ ہر طرح کے مالی معاملات میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تصرف کرنے کا حق دیا،ملکیت بنانے کا ،جائیداد کے مالک ہونے کا اور اپنے نام سے پراپرٹی رکھنے کا رائٹ عطا فرمایا اس لیے موجودہ سماج اور معاشرے میں ہمارے یہاں رسم و رواج کی شکل میں جو چیزیں رائج ہیں چاہے وہ بیٹیوں کو اور بہنوں کو میراث سے محروم کر دینے کا معاملہ ہو یا جائیداد میں حصہ نہ دینے یا اس سے دور رکھنے کا معاملہ ہو ان تمام رسم و رواج اور گناہ کے کاموں سے مسلم سماج کو اور خیر امت سے جڑے ہوئے لوگوں کو دور رھنا چاہیے اور مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی روزی کے معاملے میں اللہ رب العالمین پر بھروسہ رکھیں اور اپنا حق بھی دوسروں سے لینے کے لیے جدوجہد کریں جو ہر فرد کرتا ہے اور دوسروں کا حق دینے کے لیے،اورحقدار تک اسےپہنچانے کے لیے بھی اپنے آپ کو آمادہ اور تیار کریں اور وہ لالچ اور نفسانی خواہشات جو بندوں کو بے ایمانی، ظلم اور زیادتی پر ابھارتے ہیں ان تمام چیزوں سے اپنے آپ کو دور رکھیں تاکہ انسانیت فوز و فلاح کے راستے پر چل سکے اور جو عزت اور تکریم عورت کو ملنی چاہیے اس کو وہ عزت اور تکریم حاصل ہو سکے اور ملکیت ،تصرف اور میراث کا جو حق اسلام میں صنف نازک کو عطافرمایا ہے وہ ہماری ماؤں اور بہنوں کو اور ہماری بہن اور بیٹیوں کو حاصل ہو سکے، میراث کی اسی اہمیت کے پیش نظر علمائے عظام نے اس پر بہت ساری کتابیں لکھی ہیں اور مدارس میں شرعی اعتبار سے میراث کی تقسیم کا جو نصاب اور کورس ہوتا ہے اسے باضابطہ پڑھایا جاتا ہے اور قرآن مجید میں اس کی تفصیل موجود ہے خاص طور پر جو اصحاب الفروض ہیں ان میں خصوصی طور پر ایک عورت کو بیوی کی شکل میں اور ماں کے روپ میں اور بیٹی کی شکل میں اور اس کے علاوہ دیگر شکلوں میں مرنے والے کی جائیداد میں حصہ دار ٹھہرایا گیا ہے جو کہیں نہ کہیں اس بات کو ہمارے اور آپ کے لیے اجاگر کرتا ہے کہ عورت کو اسلام نے جو تکریم اور جو مقام عطا فرمایا ہے وہ کسی اور دھرم اور مذہب میں ہمیں دیکھنے میں نظر نہیں آتا اس لیے ظلم اور زیادتی سے دور رہتے ہوئے عورتوں کو ان کا مقام دینا چاہیے اور ان کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے انہیں ہر طرح سے وہ شرعی حقوق ملنے چاہیے جو اللہ نے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عطا فرمائے ہیں ۔یہ باتیں ممبیی کے معروف عالم دین شیخ الحدیث مولانا عبدالحکیم عبدالمعبود مدنی استاد جامعہ رحمانیہ کاندیولی ممبئی نے پریس ریلیز کے طورپر جاری کیں اوراللہ تعالی سے دعاکی کہ اللہ رب العالمین ہم تمام لوگوں کو نیک عمل کی توفیق عطا فرمائے اور رسم و رواج اور بری عادتوں سے قوم وملت کومحفوظ فرمائے۔

Related posts

خوراک کی سکیورٹی اور کسانوں کی بہبود– مودی کی گارنٹی

Siyasi Manzar

کیا تلنگانہ میں بی آر ایس اور کانگریس میں کانٹے کا مقابلہ ہوگا؟

Siyasi Manzar

"خود آگہی سے اتحاد تک”

Siyasi Manzar

Leave a Comment