Siyasi Manzar
مضامین

ظلم کا خاتمہ کرنا اور انصاف قائم کرنا امت مسلمہ کی دینی ذمہ داری ہے

سبَق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا

ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
ایڈیٹر ماہنامہ اچھا ساتھی ،بجنور۔یوپی
دنیا میں دو طرح کے قوانین کارفرما ہیں ۔ایک تکوینی اور ایک تشریعی ۔تکوینی قوانین وہ ہیں جو انسان کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں اور ان کو براہ راست اللہ تعالیٰ چلارہا ہے ۔مثال کے طور پر سورج کا طلوع و غروب ہونا ،رات دن کا بدلنا ،ہوائوں کا چلنا ،بادلوں کا برسنا وغیرہ ۔یہ تمام نظام اللہ تعالیٰ کے تکوینی قوانین کے تحت چل رہا ہے ۔انسان اگر چاہے بھی تو اس میں کوئی دخل نہیں دے سکتا ۔اسی کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ تم اللہ کی سنت (طریقہ)میں ہرگزکوئی تبدیلی نہیں پائوگے ۔(الفتح ۔23)‘‘ ۔اللہ کے تکوینی نظام میں عدل کی کارفرمائی ہے ۔اس لیے ہر چیز اپنی جگہ کام کررہی ہے ۔سورج اپنے وقت پر نکلتا ہے اور اپنے وقت پر غروب ہوجاتا ہے ۔نہ معلوم کتنی مدتیں گزرگئیں ،لیکن اس کی چال میں بال برابر بھی فرق نہیں آیا ۔چاند اپنی تاریخوں پر نکلتا ہے اور رفتہ رفتہ بڑھتا ہے پھر اپنی متعینہ تاریخوں پر گھٹنا شروع ہوجاتا ہے ۔ کبھی اس میں فرق نہیں آتا ۔اگر کبھی سورج اور چاند میں گرہن لگتا بھی ہے تو وہ بھی خداکے قانون کے مطابق ہی لگتا ہے ۔اگر یہ نظام انسان کے ماتحت ہوتا تو طاقت ور ممالک غریب ممالک پر سورج کی روشنی بند ہی کر ڈالتے اورجب چاہتے دنیا کے ایک حصہ پر تاریکی مسلط کردیتے ۔
اللہ کا دوسرا نظام تشریعی ہے ۔جس میں انسان کو اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کی آزادی دی گئی ہے ۔اس میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی پسند کا قانون عطا فرمایا ہے لیکن اس کو مجبور نہیں کیا کہ وہ اس کے قانون پر عمل کرے ۔مثال کے طور پر اللہ نے ہمیں ہاتھ دیے جن کو اچھے کام کے لیے استعمال کرنا چاہئے ،ان ہاتھوں کو اگر ہم اپنے روز مرہ کے کاموں میں مددو تعاون حاصل کرنے اور دوسروں کی مدد کرنے میں استعمال کرتے ہیں تو یہ اللہ کی پسند کے مطابق ہوگا ۔لیکن ہم مجبور نہیں ہیں ،ہم ان ہاتھوں سے کسی کو اٹھانے کے بجائے دھکا دے کر گرا بھی سکتے ہیں ،ان ہاتھوں سے کسی کو کچھ دینے کے بجائے چھین بھی سکتے ہیں ،مدد کرنے کے بجائے ظلم و زیادتی بھی کرسکتے ہیں ۔ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم کسی کو دھکا دیں یا کسی سے کچھ چھینیں تو ہمارے ہاتھ شل ہوجائیں اور کام کرنا چھوڑ دیں ۔یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اول الذکر کاموں سے خوش ہوگا اور ثانی الذکر سے ناراض ہوگا ۔اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جس طرح تکوینی نظام عدل پر قائم ہے اسی طرح انسان تشریعی نظام میں بھی عدل سے کام لے ۔اگر انسان عدل سے کام لے گاتو دنیا میں اس کی زندگی میں امن ہوگا ،سکون ہوگا ،خوش حالی ہوگی ،وہ محفوظ رہے گا اور مرنے کے بعد بھی اس کو ابدی اور دائمی جنتیں حاصل ہوں گی ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’بے شک اللہ عدل واحسان کرنے اور اہل قرابت کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے اور فحاشی ،منکرات اور سرکشی سے روکتا ہے ،وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے ،شاید کہ تم نصیحت حاصل کرنے والے بن جائو‘‘ (النحل۔90)
ایک دوسرے مقام پر فرمایا:’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے‘‘(سورہ نساء ۔135)
عدل کی ضد ظلم ہے ۔عدل یہ ہے کہ ہر شئی کو اس کے مقام پر رکھاجائے اور ظلم یہ ہے کہ کسی شئی کو اس کے مقام پر نہ رکھاجائے ۔عدل کے ثمرات امن و سکون ،خوش حالی اور ترقی کی شکل میں ملتے ہیں اور ظلم کا نتیجہ فتنہ و فساد ،بد امنی اور خون ریزی کی شکل میں سامنے آتا ہے ۔ عدل ہوگا تو انسانی معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ ہوگا اور عدل نہیں ہوگا تو ظلم و فساد ہوگا ۔آج ہم دنیا کے جس حصہ میں بھی جنگ کا سامنا کررہے ہیں وہ عدل کے فقدان کا نتیجہ ہے ۔تازہ مثال اسرائیل اور فلسطین جنگ کی ہے ۔اہل فلسطین کیوں جنگ پر آمادہ ہوئے ؟اس لیے کہ ان کے ساتھ ناانصافی کی گئی ۔اسرائیل اور اس کو قائم کرنے والے ممالک کی ناانصافیاں آج تباہی کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں ۔ اس سے قبل کی تمام جنگوں کی تاریخ اٹھالیجیے ۔ان کے اسباب میں آپ کوظلم کارفرما نظر آئے گا ۔
موجودہ دور میں ہر جگہ ناانصافی نظر آتی ہے،وہ بین الاقوامی ادارے جو دنیا میں امن کے نوبل انعام تقسیم کررہے ہیں وہ خود ناانصافی اور ظلم کا سرچشمہ ہیں ،اقوام متحدہ جس کا قیام اس لیے ہوا تھا کہ کوئی ملک کسی ملک پر ظلم نہ کرے وہاں ظالموں کے حق میں ویٹو کیا جارہا ہے ۔ملک میںعدالتوں کے فیصلے ،حکومت کی پالیسیاں ، عدل سے عاری ہیں ۔لوگوں کی آستھا کو سامنے رکھ کر ،اقتدار پر براجمان لوگوں کے اشاروں پر ،کسی عہدے و منصب کے لالچ میں ،کسی کے ڈر اور خوف سے عدالتیں فیصلے کررہی ہیں ۔رائے دہندگان کو سامنے رکھ کر آئین کے صریح خلاف پالیسیاں بنائی جارہی ہیں ،گواہ ،وکیل اور جج رشوت لے کر گناہ گار اور مجرم کو باعزت بری کررہے ہیں ۔بلقیس بانو کے مقدمہ کی مثال ہمارے سامنے ہے کس طرح ایک حکومت نے سزایافتہ مجرمین کو سلاخوں سے رہا کردیااور مظلوم کوایک بار پھر انصاف مانگنے کے لیے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا ۔ہماری بے ضمیری کا عالم یہ ہے کہ مجرمین اور قاتلین کو پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں ۔
اسلام اپنے ماننے والوں کو ہر حال میں انصاف کا حکم دیتا ہے ۔مجرم خواہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو ،وہ صاحب اثر و رسوخ والا ہی کیوں نہ ہو ،یہاں تک کہ وہ ملک کا حاکم ہی کیوں نہ ہو اگر وہ وہ مجرم ہے تو اسے سزا ضرور ملے گی ۔ارشاد باری ہے:۔’’کسی قوم کی دشمنی تمہیں ناانصافی پر آمادہ نہ کرے ،انصاف کرو ،یہ خدا ترسی کے زیادہ قریب ہے ،اللہ سے ڈرو ،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری حرکتوں سے باخبر ہے ۔‘‘َ(المائدہ 8)
اسلامی تاریخ ایسے ہزاروں واقعات سے بھری پڑی ہے ۔دور رسالت میں ایک خاتون نے چوری کی ،اس کا نام فاطمہ تھا،وہ معزز خاندان کی فرد تھی ،کچھ لوگوں کے کہنے پر حضرت اسامہ ؓ نے نبی ﷺ سے اس کی سزا میں تخفیف کے لیے سفارش کی ۔آپ ؐ نے فرمایا :’’ کیا تم اللہ کی مقرر کردہ سزا میں سفارش کر رہے ہو؟ اسامہ نے معذرت کر لی۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:۔’’ اے لوگو! تم سے پہلی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ جب کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی معمولی شخص اسی جرم کا ارتکاب کرتا تو اسے سزا دے دی جاتی۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ و سلم بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا‘‘(بخاری)
حضرت علی ؓ کے دور خلافت میں اسلامی عدالت کے قاضی حضرت شریح ؒ نے ایک معاملہ میں خود امیر المومنین حضرت علی ؓ کے خلاف فیصلہ دیا۔مشہور واقعہ ہے کہ حضرت علیؓ کی زرہ گم ہوگئی ،کچھ دن بعد وہی زرہ آپ نے ایک یہودی کے پاس دیکھی تو اسے پہچان لیا اور کہا کہ یہ زرہ میری ہے ۔یہودی نے کہا کہ یہ میرے قبضہ میں ہے اس لیے میری ہے۔ آپ ثبوت لائیے اور قاضی سے فیصلہ کرائیے ،چنانچہ قاضی شریح کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوا ۔حضرت علیؓ نے اپنے غلام اور اپنے بیٹے کو بطور گواہ پیش کیا ،قاضی نے کہا کہ مالک کے حق میں غلام کی اور باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی قابل قبول نہیں ۔اور زرہ یہودی کو دے دی ۔یہودی اس انصاف سے متاثر ہوا اور اس نے کہا کہ یہ زرہ حضرت علی ؓہی کی ہے ۔اسی کے ساتھ اس یہودی نے اسلام قبول کرلیا ۔
بہت دور نہ جائیے خود ہمارے ملک میں عدل جہانگیری مشہور ہے ۔ہم نے زنجیر عدل ایجاد کی ۔ہم جب تک عدل کرتے رہے دنیا پر حکمرانی کرتے رہے ۔ایک وقت وہ تھا جب ہماری گواہیاں معتبر تھیں اس لیے کہ ہم جھوٹ نہیں بولتے تھے ۔ اترپردیش کے شہر مظفر نگر میں ایک قطعہ زمین کی ملکیت پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تنازع تھا۔یہ برٹش دور کی بات ہے۔مقدمہ انگریز کی عدالت میں زیر سماعت تھا۔دونوں فریق اپنے دعوے پر قائم تھے۔انگریز جج نے مسلمانوں سے پوچھا کہ کیا کوئی ہندو ایسا ہے جس کی گواہی پر آپ اطمینان کر سکتے ہوں۔مسلمانوں نے انکار کردیا۔یہی بات جج نے ہندوؤں سے معلوم کی۔انھوں نے آپسی تبادلہ خیال اور غور وفکر کے بعد کہا کہ ایک بزرگ ہیں وہ بہت ایماندار ہیں ہم ان کی گواہی پر یقین رکھتے ہیں۔وہ جو کہہ دیں گے ہم مان لیں گے۔جج نے ان کو بلانے کے لیے سپاہی بھیجے۔جب سپاہی وہاں پہنچے تو بزرگ نے کہہ دیا کہ میں نے قسم کھائی ہے کہ کسی انگریز کی صورت نہ دیکھوں گا۔سپاہیوں نے یہ بات جج کو بتائی۔جج نے کہلا بھیجا کہ میری صورت نہ دیکھیں۔میری طرف پیٹھ کرکے کھڑے ہوجائیں اور گواہی دے دیں۔اس شرط پر بزرگ تشریف لے آئے اور جج کی طرف پشت کر کے کھڑے ہوگئے۔جج نے مقدمہ کی تفصیلات بتائیں اور ان سے گواہی چاہی۔بزرگ نے بڑے اطمینان سے کہا کہ اس زمین پر مسلمانوں کا دعویٰ جھوٹا ہے۔یہ زمین ہندوؤں کی ہے۔جج نے ان کی گواہی پر ہندوؤں کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔اس کا بہت اثر ہوا اور بہت سے ہندو اسی وقت مسلمان ہوگئے۔جج نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ:’’ آج مسلمان ہار گئے مگر اسلام جیت گیا‘‘۔یہ بزرگ شیخ محمود بخش ؒ سہارن پوری تھے ۔مفتی مظفر حسین ؒان ہی کے بھتیجے تھے ۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ہم خود عدل و انصاف کا دامن چھوڑ بیٹھے ہیں ۔ اسی لیے ہمارا اعتبار ختم ہوگیا ہے اورہماری عزت جاتی رہی ۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا کھویا ہوا وقار واپس آجائے ،تو ہمیں انصاف قائم کرنے والا بننا ہوگا ۔ہمیں تو ظلم سے باز رہنے ،ظلم نہ سہنے اور ظلم کو آگے بڑھ کر روکنے کے لیے مبعوث کیا گیا تھا ۔اللہ نے بنی اسرائیل کو معزول کرکے ہمیں منصب امامت پر اس لیے فائز کیا تھا کہ ہم دنیا سے ظلم کو مٹاڈالیں ۔ہمارے پاس تو خوف خدا کا وہ نسخہ تھا جس نے ہماری زندگی میں انقلاب پیدا کردیا تھا،دنیا نے ہمارے دورخلافت میں دیکھا تھاکہ ایک عورت دودھ میں پانی ملاتے ہوئے بھی ڈرتی تھی ۔مجرم اپنے جرم کا اقرار کرکے خود سزا کا مطالبہ کرتے تھے تاکہ خدا کے یہاں جہنم کے عذاب سے بچ جائیں ۔ہمیں حیات رسولؐ کی شکل میں وہ اسوہ کاملہ عطاکیا گیا تھا جس سے ہم نے اپنی زندگیوں کو اس طرح منور کیا تھا کہ ساری دنیا اس نور سے جگمگا اٹھی تھی ۔
آج ہر طرف جو ظلم ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بڑے ذمہ دار ہم خود ہیں ۔اگر ہم خود کے ساتھ ،خدا کے ساتھ ،خدا کے پیغام کے ساتھ انصاف کرتے اور سماج و معاشرے میں انصاف کو قائم کرتے تو ہمارے اقتدار کا سورج غروب نہ ہوتا ۔ہمیںاپنی زندگیوں کا جائزہ لینا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ اپنی اولاد کے ساتھ ،اپنے ہمسائیوں اور رشتہ داروں کے ساتھ ،اپنے زیر دست افراد کے ساتھ ہمارا معاملہ کیا ہے ؟اگر ہم عدل پر کاربند ہیں تو یقین رکھیے اللہ ہمیں ضرور سرخ رو کرے گا اور اگر ہمارا رویہ غیر عادلانہ اور ظالمانہ ہے تو مزید رسوائیاں ہماری منتظر ہیں۔

Related posts

جموں و کشمیر میں دفعہ370 کی منسوخی سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی

Siyasi Manzar

احساس مرتا ہے تو غیرت بھی مر جاتی ہے

Siyasi Manzar

سوچھ بھارت مشن تیز رفتار تبدیلی کی روشن نظیر

Siyasi Manzar

Leave a Comment